کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 70
دراز ہو چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپ کے ساتھ مسلمانوں نے تیاری کی۔ میں بھی تیاری کرنے کا سوچ رہا تھا لیکن میں نے کچھ بھی نہیں کیا اور اپنے دل میں کہا میں (کسی بھی وقت) تیاری کر سکتا ہوں ۔ یوں ہی وقت گزرتا رہا، لوگوں نے اپنی تیاری مکمل کر لیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ روانہ بھی ہوگئے۔ میں نے اس وقت تک کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ یوں ہی وقت گزرنا گیا۔ یہاں تک کہ وہ تیزی سے چلے گئے اور غزوہ میں شرکت میرے لیے دور کی بات ہوگئی۔ میں یہی ارادہ کرتا رہا کہ جاؤں اور انہیں پا لوں ۔ کاش میں نے ایسا کر لیا ہوتا لیکن یہ میرے نصیب میں نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا اور لوگوں میں گھومتا تو مجھے دیکھ کر رنج ہوتا کہ وہاں صرف دو ہی قسم کے لوگ تھے، ایک وہ جن پر نفاق کی تہمت تھی، اور دوسرے وہ کمزور لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دے دیا تھا۔ تبوک پہنچنے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ذکر نہ فرمایا، تبوک میں ایک مجلس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا: ما فعل کعب؟ کعب نے (یہ) کیا کیا؟ بنو سلمہ کے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن وجمال یا لباس پر غرور نے اس کو آنے نہیں دیا۔ اس پر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا تم نے بری بات کہی ہے! اللہ کی قسم! یا رسول اللہ ہم ان کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، جب مجھے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لا رہے ہیں ، تو مجھ پر فکر سوار ہوا اور میرا ذہن کوئی ایسا جھوٹا بہانہ تلاش کرنے لگا جس سے میں کل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی سے بچ سکوں ۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے گھر کے ہر عقل مند فرد سے مشورہ بھی کیا۔