کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 69
سچ بولنے پر کیسا اچھا صلہ ملا؟ کہ ان کے سچ بولنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کو شرف قبولیت عطا کی جو آیات قرآنی کی شکل میں رہتی دنیا تک تلاوت کی جائیں گی۔ ہم یہ واقعہ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فضل الٰہی کے الفاظ میں خود سیدنا کعب بن مالک کی زبان بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوئہ تبوک کے سوا کسی اور غزوہ میں ایسا نہیں ہوا تھا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہ ہوا ہوں البتہ غزوئہ بدر میں بھی شامل نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس سے غیر حاضر رہنے والوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار نہیں فرمایا تھا۔ (غزوئہ تبوک میں ) میری صورت حال یہ تھی کہ میں کبھی بھی اتنا زیادہ قوی اور اس قدر آسودہ حال نہیں تھا، جس قدر اس موقع پر تھا، اس غزوہ کے موقع پر میں نے دو سواریاں جمع کر رکھی تھیں جو کہ اس سے پیشتر میرے پاس کبھی جمع نہیں ہوئی تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ کے لیے تشریف لے جاتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے ذو معنی الفاظ استعمال فرمایا کرتے تھے۔ لیکن اس غزوہ کے وقت (چونکہ) گرمی سخت تھی، سفر دراز اور راستہ بیابانی تھا اور دشمن کی تعداد کثیر تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے صورت حال کو واضح فرما دیا۔ تاکہ وہ اس کے مطابق تیاری کر لیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سمت کی (بھی) نشان دہی فرما دی، جس کی طرف آپ کا جانے کا ارادہ تھا۔ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کثیر تعداد میں تھے اور کسی رجسٹر میں ان کے نام درج نہیں کیے گئے تھے۔ کعب رضی اللہ عنہ نے (مزید) بیان کیا کوئی بھی شخص اگر اس غزوئہ سے غائب رہتا تو وہ یہ خیال کر سکتا تھا کہ اس کی غیر حاضری مخفی رہے گی، سوائے اس کے کہ اس کے متعلق وحی نازل ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوئہ کے لیے اس وقت نکلے جب کہ پھل پک چکے تھے اور سائے