کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 68
اس سے معلوم ہوا کہ سچ بولنے سے آدمی کو ذہنی سکون اور اطمینان میسر ہوتا ہے۔ جب کہ جھوٹ اسے بے چینی اور ذہنی تنگی میں جکڑ لیتا ہے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((من سال اللّٰه شہادۃ بصدق بلغہ اللّٰہ منازل الشہداء وان مات علی فراشہ۔))[1] ’’جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مرتبوں تک پہنچا دے گا، اگرچہ اسے بستر پر ہی موت آئے۔‘‘ قارئین کرام! اللہ تعالیٰ کے ہاں سچ اور سچی نیت کی کس قدر اہمیت و فضیلت ہے کہ اللہ رب العزت سچے دل سے شہادت مانگنے والے شخص کو اپنے بستر پر ہی شہادت کا رتبہ عطا فرما دیتے ہیں ۔ سچ کے ثمرات و برکات کے متعلق ایسی ہی ایک روایت سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((البیعان بالخیار ما لم یتفرقا فان صدقا و بینا بورک لہما فی بیعہما وان کتما وکذبا محقق برکۃ بیعہما۔))[2] ’’دونوں سودا کرنے والوں کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں پس اگر وہ دونوں سچ بولیں اور چیز کی حقیقت صحیح صحیح بیان کر دیں تو اس سودے میں برکت ڈالی جاتی ہے، اور اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے سودے سے برکت مٹا دی جاتی ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اگر ہم سچ بولیں اور سچ کو اپنا وطیرہ بنا لیں تو ہمارے کاروبار میں بھی خیر و برکت نازل ہوگی، ورنہ ان سے خیر کا پہلو اٹھ جائے گا۔ اسی ضمن میں سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ ان کو
[1] مسلم: 1909۔ [2] بخاری: 2079۔