کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 65
رپورٹ شاہ خالد کو پیش کر دی گئی۔ اس رپورٹ میں مرتدین کے حلفیہ بیان بھی شامل تھے جس میں انہوں نے اعتراف جرم کیا تھا، بعد ازاں علماء کرام کی اعلیٰ کونسل سے اس بارے میں فتویٰ حاصل کیا گیا، ان علماء نے مجرموں کے سر قلم کرنے کی اجازت دی، اس بناء پر شاہ خالد نے مجرمین کے لیے سزائے موت کے احکامات جاری کر دئیے۔ وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق مکہ معظمہ میں پندرہ افراد، ریاض میں دس مدینہ منورہ میں سات، دمام میں سات، بریدہ میں سات، حائل میں پانچ، ابہا میں سات اور بوک میں پانچ منافقوں کے سر قلم کر دئیے گئے۔ سزا یافتگان میں اکتالیس سعودی عرب دس مصر چھ جنوبی یمن، تین کویت، شمالی یمن اور عراق کا ایک آدمی تھا۔ جن مجرموں نے خون نہیں بہایا یا جو ان منافقین کے سرغنے نہیں تھے یا اکسانے والوں میں شامل نہیں تھے، ان افراد کو قید کی ان کے جرم کی نوعیت کے مطابق سزا دی جائے گی، مجرموں میں بعض عورتیں بھی شامل تھیں جنہیں اصلاح عقیدہ کے لیے دارالنسوہ کے سپردہ کر دیا گیا۔[1] قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مہدی موعود ہونے کی جھوٹا دعویٰ اور جھوٹی افواہ پھیلانے سے کس قدر نقصان ہوا اور کس طرح حرمت والی جگہ کی حرمت کو پامال کر کے وہاں خون بہایا گیا اور بہت بڑا فساد برپا کیا گیا؟ اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹی افواہ کو جنم دینا ایک گمراہ کن فعل ہے، جس سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں ۔ اس لیے جھوٹ کو مومن کی شایان شان کے خلاف قرار دیا گیا اور جھوٹ کے راستے کو جہنم کا راستہ قرار دیا گیا۔
[1] نوائے وقت 10 جنوری 1980ء بحوالہ قہر خداوندی برگستاخان اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، از محمد اسماعیل گڑنگی، ص 166 تا 173۔