کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 64
گئے، دوسری منزل کو جانے والی سیڑھیاں بکتر بند گاڑیوں اور فوجی ٹرکوں کے وزن سے ڈھیر ہو چکی تھیں ، ستونوں پر بڑی نقاہت سے جو سنگ مر مر چڑھایا گیا تھا وہ اکھڑا ہوا تھا، حرم کے تہہ خانوں میں گھٹنوں تک پانی کھڑا تھا، اور صبح کی لڑائی کے دوران سعودی فوج کے مرتدین کو جو ہتھیار ڈالنے کے لیے جو ٹائر جلائے تھے ان کی بو اب تک کافی شدید تھی جس سے میرا دم گھٹنے لگا، میں نے دیکھا کہ تہہ خانوں کو جانے والے راستوں پر مفسرین نے خاردار تار بچھا رکھی تھی تاکہ سعودی فوج کا راستہ روکا جا سکے میں حالات دیکھ کر جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔[1] اس المناک سانحہ میں کتنی معصوم جانوں کو خاک اور خون میں تڑپایا گیا اور حرم محترم کی تقدیس کو کس طرح پامال کیا گیا، مرتدین کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7 دسمبر 1979ء کو جب دوبارہ حرم شریف کو عبادت کے لیے کھولا گیا تو سعودی عرب کے وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز نے کہا: خانہ کعبہ کو مفسدین سے پاک کرنے اور بیت اللہ شریف پر دوبارہ مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سعودی نیشنل گارڈز کے فوجیوں اور مسلح حملہ آوروں کے درمیان شدید جنگ ہوئی، اس لڑائی میں پچھتّر باغی ہلاک ہوئے اور ساٹھ نیشنل گارڈ کے فوجی شہید ہوئے۔ چار پاکستانیوں سمیت چھبیس حاجی بھی جان بحق ہوئے سینکڑوں زخمی ہوئے بیت اللہ کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے والوں میں سے ایک سو ستر کو زندہ گرفتار اور ان میں پچاس مفسدین کو ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔ ٹیلی ویژن کے تبصرہ نگار نے ان لوگوں کو ازلی جہنمی اور مرتد قرار دیا اور کہا کہ ان پر ہمیشہ لعنت اور پھٹکار بھیجی جاتی رہے گی۔ سزائے موت: حرم کعبہ پر قبضہ اور خونریزی کرنے والے تریسٹھ مرتدین اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئے سعودی وزیر داخلہ کے اعلان کے مطابق اس المناک واقعہ کی تحقیقات کی گئیں اور اس کو
[1] بحوالہ روزنامہ نوائے وقت 11 دسمبر 1979ء۔