کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 63
مروہ کے درمیان بلند وبالا کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر جان بچائی۔ امام حرم جو اپنی حاضر دماغی کے باعث مفسدین کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے، فوراً ایک کمرہ میں جا کر ٹیلیفون سے حکام کو صورت حال سے آگاہ کیا اور اپنی عباء اتار کر عام نمازیوں میں شامل ہو کر باہر نکل گئے اسی اثناء میں حملہ آور میناروں سمیت بہت سے محفوظ اور اہم جگہوں پر مورچہ بند ہوگئے اور وقفے وقفے سے گولیاں چلانے لگے۔ چونکہ سعودی حکومت میں سپر پاور علماء کرام کو حاصل ہے، اس لیے شاہ خالد نے فی الفور 34 علماء کرام پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس ریاض میں طلب کر لیا، علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مسلح گمراہ افراد کے خلاف تشدد کی کارروائی شریعت کے عین مطابق ہے اور مسلمانوں کی جان کا تحفظ کرنے کے لیے اہم اقدامات نہایت ضروری ہیں ۔ اس فتویٰ کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے نظریہ ضروری تھا کہ کم از کم نقصان ہو اور بحران پر قابو پا لیا جائے اس لیے سعودی افواج نے بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کیا تاہم چودہ دن کی زبردست جنگ کے نقصانات کی چشم دید رپورٹ عرب نیوز کے نمائندے نے 10 دسمبر کو اس طرح پیش کی۔ حرم کے اندر پارکنگ فوجی جیپوں سے بھری ہوئی تھی، جن میں مشین گنیں نصب تھیں ، حفاظتی انتظامات انتہائی سخت تھے۔ قرب وجوار کے مکانات لڑائی کے دوران خالی کرا لیے گئے تھے۔ مروہ کی جانب سے سعی کا آخری دروازہ ٹوٹا ہوا تھا، دونوں طرف کی دیواریں مسمار ہو چکی تھیں ، حرم کی مشرقی جانب مروہ کو صفا سے جدا کرنے والی دیوار مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی، دیواروں دروازوں اور چند بچی کھچی کھڑکیوں کے ٹکڑوں پر گولیوں اور گولوں کے نشانات نمایاں تھے، بجلی کی ٹیوبیں پنکھے اور ائیر کنڈیشنر تباہ و برباد پڑے تھے۔ حرم کے مینار جن پر مفسرین مورچہ بند تھے جہاں سے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر رکھی تھی اور جہاں کوئی چیز ہلتی نظر آتی تو اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی، میناروں پر جا بجا گولیاں کے نشانات موجود تھے، متعدد دستے ٹوٹے ہوئے تھے اور بعض مکمل طور پر تباہ کر دئیے