کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 62
ہوئے جوتوں سمیت دوڑتے ہوئے حرم میں گھس آئے۔ چند آدمیوں نے امام صاحب کو گھیرے میں لے لیا اور کچھ لوگ مکبرہ میں لاؤڈ اسپیکر پر قابض ہوگئے۔ اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ جن میں اکثریت غیر ملکی حجاج کی تھی جبکہ حملہ آوروں کی تعداد دو سو سے پانچ سو تک بتائی جاتی ہے۔ جو زیادہ سعودی اور بعض مصری یمنی کویتی، سوڈانی، عراقی اور پاکستانی بھی تھے۔ یہ لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طویل جنگ کے لیے تیار ہو کر آئے تھے۔ ان کا ستائیس سالہ مرغنہ محمد بن عبداللہ قحطانی جس نے چار سال تک مکہ یونیورسٹی سے اسلامی قوانین کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کا دست راست جہیمان بن یوسف الہتیبہ تھا، مفسرین نے حرم کے تمام دروازے بند کر لیے اور مؤذن کے کیبن سے ایک آدمی نے عربی میں اعلان کیا کہ مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا آچکا ہے، دوسرے آدمی نے عربی میں لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائی ۔ اور اس کا اردو ترجمہ ایک اور آدمی نے سنایا۔ نام نہاد مہدی نے بھی مائیک پر یہ اعلان کیا کہ میں نئی صدی کا مہدی ہوں ، میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کریں ، چنانچہ بعد میں مقام ابراہیم کے پاس کوڑوں اور سینگوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے گمراہ ٹولے نے خود ہی بیعت کرنا شروع کر دی کہ شاید دوسرے لوگ بھی دام تزویر میں پھنس جائیں مگر حجاج میں سے کسی نے بھی اس مذموم فعل کی حوصلہ افزائی نہیں کی، امام کعبہ کو بھی بیعت کے لیے مجبور کیا گیا مگر اس مرد حق آگاہ کے پائے استقامت میں ذرہ بھی جنبش نہیں آئی۔ اتنے میں انتظامیہ نے بجلی کا کنکش کاٹ دیا اور پورا حرم تاریکی میں ڈوب گیا جس سے لوگوں میں زبردست خوف وہراس اور سراسیمگی پھیل گئی جب وہ باہر نکلنے کے لیے دروازوں کی طرف بڑھے تو انہیں بند پا کر زیادہ حواس باختہ ہوگئی۔ باب اسلام جدید کے زیر زمین راستہ اکثر لوگ باہر نکلے جبکہ بہت سے لوگوں نے صفا