کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 61
اور بعض روافض دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ آج ان کی امام بارگاہ کے علم میں سیدنا حسین اور اہل بیت عظام کی تصاویر نظر آئی ہیں وغیرہ وعیرہ۔
ایسی ہی ایک جھوٹی افواہ کے متعلق راقم الحروف کے والد محترم بیان کرتے ہیں کہ نیوسعید آباد کے سندھ کے علاقے میں ایک افواہ پھیلائی گئی کہ ایک ہندو کے گھر میں ایک بچے نے جنم لیا جس کی آنکھ کے تارے میں نبی محترم علیہ الصلوۃوالسلام کا اسم مبارک ’محمد‘ مرقوم ہے۔
والد محترم بیان کرتے ہیں کہ ابھی ہم اتنے پختہ عقیدہ والے نہیں تھے لہٰذا ہم بھی ایک خصوصی گاڑی کے ذریعے مذکورہ مقام پہنچے جہاں لوگوں کی بہت بڑا ہجوم ہجوم آیا ہوا تھا۔
ہم نے بہت کوشش کی کہ نظر آئے لیکن کچھ نظر نہیں آیا۔
بالآخر ہم سندھ کے بہت بڑے عالم ومحدث علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے ہاں آئے، شاہ صاحب ابھی زندہ تھے۔ ہم نے پورا واقعہ بیان کر کے بتایا تو آپ بہت برہم ہوئے اور آئندہ کے لیے ایسی کسی جھوٹی افواہ پر کان دھرنے سے منع کیا اسی طرح اندرون سندھ میں ایک درگاہ سعدی موسانی کے متعلق قبر پرستوں نے یہ افواہ پھیلا رکھی ہے کہ اس درگاہ میں مدفون سید زادہ آنکھوں کا علاج (آپریشن) کرتے ہیں ۔
جو یہاں آتا ہے اس کی آنکھوں کی تکلیف دور ہو جاتی ہے اور اس کی بینائی تیز ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
قارئین کرام! اب اس درگاہ میں آنکھوں کے مریضوں کا ہر وقت رش رہتا ہے۔
اسی طرح سن 1400 ہجری میں چند شر پسندوں نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کر کے حرم مکہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، حرم مکہ کے اندر خون بہایا اور حرم شریف کی عزت وتقدس کو پامال کیا۔
ہوا کچھ یوں کہ یکم محرم الحرام سن 1400 ہجری صبح کو امام حرم شیخ عبداللہ بن سبیل نے ابھی نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا اور مکبّر دوسری جانب سلام پھیرنے والا ہی تھا کہ حملہ آور اللہ اکبر جہاد جہاد کے فلک شگاف نعرے لگاتے ، ریلوالر رائفلیں اور سٹین گنیں ہوا میں لہراتے