کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 60
ایسی صورت میں واللہ میرے لیے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثل ہے، جسے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد نے کہا تھا۔ ﴿ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴾ ’’صبر ہی بہتر ہے اور تم لوگ جو کہتے ہو اس پر اللہ کی مدد مطلوب ہے۔‘‘ اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جا کر لیٹ گئیں اور اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوگیا۔ پھر جب آپ سے نزول وحی کی شدت وکیفیت ختم ہوئی تو آپ مسکرا رہے تھے۔ اور آپ نے پہلی بات جو فرمائی وہ یہ تھی کہ اے عائشہ! اللہ نے تمہیں بَری کر دیا ہے۔ اس پر (خوشی سے) ان کی ماں بولیں (عائشہ) حضور کی جانب اٹھو (شکریہ ادا کرو) انہوں نے اپنے دامن کی براء ت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اعتماد اور وثوق کے سبب قدرے ناز کے انداز میں کہا، واللہ میں تو ان کی طرف نہ اٹھوں گی اور صرف اللہ کی حمد کروں گی۔ اس موقع پر واقعہ افک سے متعلق جو آیات اللہ نے نازل فرمائیں وہ سورئہ نور کی دس آیات ہیں جو ﴿ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ﴾ سے شروع ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد تہمت تراشنے کے جرم میں مسطح بن اثاثہ حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم کو اَسّی کوڑے مارے گئے۔[1] قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ منافقوں کی گھڑی ہوئی یہ افواہ اور جھوٹ اللہ کے نبی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جھوٹی افواہ پھیلانا اس قدر سنگین جرم ہے کہ اگر اس میں کوئی صحابی بھی ملوث ہے تو حد قذف سے اسے چھوٹ نہیں ۔ اور یہی افواہ بعض اوقات مسلمانوں کے عقیدے کی بگاڑ کا باعث بھی بنتا ہے جیسے بسا اوقات لوگ یہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ اگر آج آپ چاند کو غور سے دیکھیں تو نہ چاند پر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تصویر نظر آرہی ہے۔
[1] الرحیق المختوم، ص 452 تا 455۔