کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 59
بددعا دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حرکت پر اسے ٹوکا تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بتلانے کے لیے کہ میرا بیٹا بھی پروپیگنڈہ کے جرم میں شریک ہے تہمت کا واقعہ کہہ سنایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے واپس آکر اس خبر کا ٹھیک ٹھیک پتا لگانے کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والدین کے پاس جانے کی اجازت چاہی، پھر اجازت پا کر والدین کے پاس تشریف لے گئیں ۔ اور صورت حال کا ییقنی طور پر غم ہوگیا تو بے اختیار رونے لگیں اور پھر دو راتیں اور ایک دن روتے روتے گزر گیا۔
اس دوران نہ نیند کا سرمہ لگایا نہ آنسو کی جھڑی رکی۔
وہ محسوس کرتی تھیں کہ روتے روتے کلیجہ شق ہو جائے گا۔
اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے کلمہ شہادت پر مشتمل خطبہ پڑھا اور امابعد کہہ کر فرمایا اے عائشہ! مجھے تمہارے متعلق ایسی اور ایسی بات کا پتہ لگا ہے۔ اگر تم اس سے بری ہو تو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہاری براء ت ظاہر فرما دے گا اور اگر خدانخواستہ تم سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے تو تم اللہ سے مغفرت مانگو اور توبہ کرو، جب بندہ اپنے گناہ کا اقرار کر کے اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔
اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے آنسو ایک دم تھم گئے اور اب انہیں آنسو کا ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دیں ۔
اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود ہی کہا: واللہ! میں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ لوگوں کے دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی ہے۔
اور آپ لوگوں نے اسے بالکل سچ سمجھ لیا ہے۔ اس لیے اب اگر میں یہ کہوں کہ میں بری ہوں … اور اللہ خوب جانتا ہے میں بری ہوں … تو آپ لوگ میری بات سچ نہیں سمجھیں گے اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کر لوں … حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں … تو آپ لوگ صحیح مان لیں گے۔