کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 58
یعنی بدکاری کی تہمت تراش کر واقعات کے تانے بانے بننا، تہمت کے خاکے میں رنگ بھرنا اور اسے پھیلانا شروع کیا اس کے ساتھی بھی اس بات کو بنیاد بنا کر اس کا تقرب حاصل کرنے لگے۔ اور جب مدینہ آئے تو ان تہمتوں تراشوں نے خوب جم پر پروپیگنڈہ کیا ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے کچھ بول نہیں رہے تھے۔ لیکن جب لمبے عرصے تک وحی نہ آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے علیحدگی کے متعلق اپنے خاص صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صراحت کے بغیر اشاروں اشاروں میں مشورہ دیا کہ آپ ان سے علیحدگی اختیار کر کے کسی اور سے شادی کر لیں لیکن حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے مشورہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی زوجیت میں برقرار رکھیں ۔ اور دشمنوں کی بات پر کان نہ دھریں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی کی ایذاء رسانیوں سے نجات دلانے کی طرف توجہ دلائی۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ اور اسیر بن حضیر رضی اللہ عنہما نے اس کے قتل کی اجازت چاہی لیکن سعد بن عبادہ پر جو عبداللہ بن ابی کے قبیلہ خزرج کے سردار تھے، قبائلی حمیت غالب آگئی اور دونوں حضرات میں ترش کلامی ہوگئی جس کے نتیجے میں دونوں قبیلے بھڑک اٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاصی مشکل سے انہیں خاموش کیا پھر خود بھی خاموش ہوگئے۔ ادھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ غزوے سے واپس آتے ہی بیمار پڑ گئیں اور ایک مہینے تک مسلسل بیمار رہیں انہیں اس تہمت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا، البتہ انہیں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ بیماری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو لطف وعنایت ہوا کرتی تھی اب وہ نظر نہیں آرہی تھی بیماری ختم ہوئی تو وہ ایک رات ام مسطح رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قضائے حاجت کے لیے میدان میں گئیں۔ اتفاق سے ام مسطح اپنی چادر میں پھنس کر پھسل گئیں اور اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو