کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 57
انہوں نے سمجھا آپ ہودج کے اندر تشریف فرما ہیں اس لیے اسے اونٹ پر لاد دیا، اور ہودج کے ہلکے پن پر نہ چونکے۔ کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ابھی نو عمر تھیں بدن موٹا اور بوجھل نہ تھا نیز چونکہ کئی آدمیوں نے مل کر ہودج اٹھایا تھا اس لیے بھی ہلکے پن پر تعجب نہ ہوا اگر صرف ایک یا دو آدمی اٹھاتے تو انہیں ضرور محسوس ہو جاتا۔ بہرحال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہار ڈھونڈھ کر قیام گاہ پہنچیں تو پورا لشکر جا چکا تھا اور میدان بالکل خالی پڑا تھا نہ کوئی پکارنے والا تھا نہ جواب دینے والا وہ اس خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ لوگ انہیں پائیں گے تو پلٹ کر وہیں تلاش کرنے آئیں گے لیکن اللہ اپنے امر پر غائب ہے وہ بالائے عرش سے جو تدبیر چاہتا ہے کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئیں پھر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کی یہ آواز سن کر بیدار ہوئی کہ انا للہ وانا الیہ راجعون، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی…؟ وہ پچھلی رات کو چلا آرہا تھا، صبح کو اس جگہ پہنچا جہاں آپ موجود تھیں ، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا تو پہچان لیا کیونکہ وہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی انہیں دیکھ چکے تھے انہوں نے انا للہ پڑھی اور اپنی سواری بٹھا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قریب کر دی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس پر سوار ہوگئیں ۔ حضرت صفوان نے انا للہ کے سوا زبان سے ایک لفظ نہ نکالا چپ چاپ سواری کی نکیل تھامی اور پیدل چلتے ہوئے لشکر میں آگئے یہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا اور لشکر پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ انہیں اس کیفیت کے ساتھ آتا دیکھ کر مختلف لوگوں کے اپنے اپنے انداز پر تبصرہ کیا اور اللہ کے دشمن خبیث عبداللہ بن ابی کو بھڑاس نکالنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ چنانچہ اس کے پہلو میں نفاق اور حسد کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے اس کے کرب کو پنہاں کو عیاں اور نمایاں کیا۔