کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 56
جس شخص نے غلام کو اس کے مالک کے خلاف بھڑکا یا، فلیس منا، وہ ہم میں سے نہیں ۔[1] اور کبھی کبھی یہی جھوٹی افواہ مومنوں کے لیے درد وعلم بن کر ابھرتا ہے جس طرح صلح حدیبیہ کے دن ہوا تھا کہ یہ جھوٹی افواہ پھیلائی گئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو کفار مکہ نے شہید کر دیا ہے۔ جو جھوٹی افواہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے لیے ایک کرب وتکلیف کا باعث بنی اور بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لینی شروع کی جو بات بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی۔ اسی طرح غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی جھوٹی افواہ کے حوالے سے علامہ صفی الرحمن مبارکپوری اپنی شہرہ آفاق کتاب الرحیق المختوم میں سرخی قائم کرتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر اور معرکہ پر اس کا اثر۔‘‘ اس کے تحت علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مسلمانوں اور مشرکوں دونوں میں پھیل گئی اور یہی وہ نازک ترین لمحہ تھا، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ تھلگ نرغے کے اندر آئے ہوئے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوصلے ٹوٹ گئے ان کے عزائم سرد پڑ گئے اور ان کی صفیں اتھلی پتھلی اور بدنظمی اور انتشار کا شکار ہوگئیں ۔[2] اسی طرح واقعہ افک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے چینی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ علامہ صفی الرحمن مبارک پوری اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔ اس واقعہ کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ سفر میں جاتے ہوئے ہوئے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے جس کا قرعہ نکل آتا اسے ہمراہ لے جاتے۔ اس غزوہ میں قرعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے گئے غزوے سے واپسی میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنی حاجت کے لیے گئیں اور اپنی بہن کا ہار عاریتہ لے گئی تھیں کھو بیٹھیں ۔ احساس ہوتے ہی اس جگہ واپس گئیں جہاں ہار غائب ہوا تھا اسی دوران وہ لوگ آئے جو آپ کے ہودج اونٹ پر لادا کرتے تھے۔
[1] ابوداود: 5170۔ [2] الرحیق المختوم: ص372۔