کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 55
یعنی وہ لوگ جو دو گروہوں کی باتوں کو ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں جس سے ان کے درمیان ایک فتنہ بھی جنم لے سکتا ہے۔ جب کہ اسلام رتو ایک خیر خواہی کا دین ہے جوس نے جھوٹ بول کر بھی دو لڑے ہوئے بھائیوں کو ملانے کی تعلیم دی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس فیمنی خیرا او یقول خیرا۔))[1] وہ جھوٹا نہیں جو کہ لوگوں کی صلح کرواتے ہوئے اچھی بات نقل کرتا ہے یا خیر کی بات کرتا ہے۔‘‘ اور یہی جھوٹی افواہ بعض اوقات پاک دامن عورتوں کی رسوائی کا باعث بھی بنتا ہے اس لیے اسلام نے حد قذف کا قانون قائم کیا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾(النور: 4) ’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں ۔‘‘ اور اسی طرح یہی جھوٹی افواہ بعض اوقات خاوند اور بیوی کے درمیان علیحدگی اور رنجش کا باعث بھی بنتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((من جنب زوجۃ امریء او مملوکہ فلیس منا۔))[2] ’’جو شخص کسی کی بیوی کو اس کے شوہر کے خلاف یا غلام کو اس کے مالک کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘ اور بعض اوقات آقا وغلام کے درمیان فتنے کا سبب بنتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح بخاری: 2692۔ [2] ابوداود: 5170۔