کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 54
افواہوں کو جنم دینا قارئین کرام! جھوٹ بول کر جھوٹی افواہ کو جنم دینا یقینا ایک خسارے کا باعث عمل اور ایمان کے منافی کام ہے۔ نبی محترم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ: ((آیۃ المنافق ثلاثۃ اذا حدّث کذب واذا وعد اخلف واذا ائتمن خان۔))[1] منافق کی تین علامات ہیں ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کام کسی مومن کا نہیں ہو سکتا اور کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ جھوٹی باتیں گھڑ کر عوام الناس میں پھیلا دے کہ ممکن ہے کہ ایک مومن بھی اس افواہ کا شکار ہو جائے جیسے واقعہ افک میں منافقوں کی پھیلائی ہوئی افواہ میں تین مومن صحابی مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت، حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہم بھی شکار ہوگئے تھے۔ اور یہی افواہ بعض اوقات دو مومنوں کو لڑانے کا باعث بھی بنتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو منہ والے شخص کے متعلق فرمایا: ((من کان لہ وجہان فی الدنیا کان لہ یوم القیامۃ لسانان من النار۔))[2] ’’(جو آدمی دو رخا ہو) قیامت کے روز اس کی دو زبانیں ہوں گی جو آگ کے ہوں گے۔‘‘
[1] صحیح بخاری۔ [2] ابوداود: 4873۔