کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 51
قاضی ابو مسعود نے اس آیت کی تفسیر میں قلم بند کیا ہے: یعنی نہ تو وہ مصیبت سے بچیں گے اور نہ ہی کبھی مقصود کو حاصل کریں گے۔[1]
13: جھوٹ باندھنے والے پر اللہ کی لعنت:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ﴾ (ہود: 18)
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر افترا باندھتا ہے؟ لوگ اپنے رب کے روبرو پیش کیے جائیں گے اور گواہان کہیں گے۔ یہی وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا آگاہ رہیے ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘
شیخ سعدی نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ آگاہ فرما رہے ہیں کہ (اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے سے بڑا ظالم کوئی نہیں ) اس میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہر جھوٹ بولنے والا شامل ہے اور ایسے لوگ تمام انسانوں میں سے سب سے بڑے ظالم ہیں ۔ (یہ لوگ اپنے رب کے روبرو پیش کیے جائیں گے)۔ تاکہ وہ انہیں ان کے ظلم کی سزا دیں جب وہ انہیں شدید سزا دینے کا فیصلہ فرمائیں گے تو (گواہان کہیں گے) یعنی وہ جو کہ افترا باندھتے اور جھوٹ بولنے کی گواہی دیں گے کہ (یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا آگاہ رہیے ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے) یعنی دائمی لعنت کیونکہ (اللہ تعالیٰ پر افترا باندھنے کی بنا پر) ظلم ان کا وصف لازم بن گیا ہے۔ (اس لیے ان کے عذاب میں ) تخفیف کی کوئی گنجائش نہیں ۔‘‘[2]
[1] تفسیر ابی المسعود: 164/4۔
[2] تفسیر السعدی: 398۔