کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 48
و شراب (کھانا پینا) چھوڑنے کی چنداں حاجت نہیں ۔‘‘ اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تنبیہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ اور اس کے مطابق عمل کرنے والے شخص کا روزہ قبول نہیں فرماتے۔ 8: جھوٹ کا تاجروں کو فاجر بنانے والی چیزوں میں سے ہونا: جھوٹ کی قباحت اس حقیقت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ تاجر حضرات کو فاجر لوگوں میں شامل کرنے والے اسباب و عوامل میں سے ایک ہے۔ امام احمد اور امام حاکم نے حضرت عبدالرحمن بن شبل انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إنَّ التُّجّارَ هُم الفُجّارُ)) ’’بلا شبہ تاجر ہی تو فاجر ہے۔‘‘ ((قال رجُلٌ: يا نبيَّ اللهِ، ألم يُحِلَّ اللهُ البَيْعَ ۔)) ’’ایک شخص نے عرض کیا: کہ اے اللہ کے نبی! کیا اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال نہیں فرمایا۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فإنَّهم يَقولونَ فيَكذِبونَ، ويَحلِفونَ ويأْثَمونَ ۔))[1] ’’درحقیقت وہ بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں قسمیں کھاتے ہیں اور گناہ گار ہوتے ہیں ۔‘‘ 9: جھوٹ کا گناہوں اور جہنم کی طرف لے جانا: جھوٹ اپنے بولنے والے کو راہ ہق سے ہٹا کر گناہوں کی طرف مائل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو جہنم میں پہنچا دیتا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عبداللہ سے روایت نقل کی ہے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] المسند، رقم الحدیث: 15669۔ المستدرک علی الصحیحین کتاب البیوع: 7/2۔