کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 47
ہے اور جھوٹ (دل کے لیے سبب) قلق ہے۔[1] اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو ریبۃ قرار دیا ہے، اور اس سے مراد جیسا کہ ملا علی قاری نے بیان کیا ہے۔ یہ ہے کہ وہ نفس کے لیے قلق اور بے چینی کا سبب ہے۔[2] روزمرہ زندگی میں جھوٹے شخص کا اضطراب اور بے چینی حدیث میں بیان کردہ حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ بد نصیب اپنے ایک جھوٹ کی پردہ پوشی یا اصلاح کی خاطر کتنے جھوٹ بولتا ہے لیکن کیا تھوڑی مقدار میں گندگی سے پیدا ہونے والی بدبو کو زیادہ مقدار میں نجاست دور کر سکتی ہے۔ 6: جھوٹ کا راہ ہدایت کی رکاوٹ ہونا: کتاب وسنت میں راہ ہدایت کی رکاوٹوں کو بیان کیا گیا ہے انہی میں سے ایک رکاوٹ جھوٹ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ (الزمر: 3) ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نہیں دیتے جو جھوٹا کافر ہو۔‘‘ 7: جھوٹ اور اس کے مطابق عمل، قبولیت روزہ میں رکاوٹ: جھوٹ کی سنگینی کو آشکار کرنے والی باتوں میں ایک یہ ہے کہ جھوٹ اور اس کے مطابق عمل کرنا روزے کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ ہے، امام بخاری نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَن لم يَدَعْ قولَ الزُّورِ والعمَلَ به فليس للهِ حاجةٌ أن يدَعَ طعامَهُ وشرابَهُ ۔))[3] ’’جس نے جھوٹ اور اس کے مطابق عمل ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے طعام
[1] مسند ابی داود الطیالسی احادیث الحسن بن علی جزء من رقم الحدیث: 1274 وغیرہ۔ [2] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح: 24/6۔ [3] صحیح بخاری، کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزور الخ رقم الحدیث: 1903۔