کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 44
اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ حق سے ہٹا ہوا ہے۔[1] اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بتوں کی پرستش کی ممانعت کے ساتھ ہی جھوٹ سے منع فرمایا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ یہاں (من) جنس کے بیان کے لیے ہے یعنی نجاست سے اجتناب کرو اور وہ (نجاست) بت ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کو جھوٹ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (انہوں نے فرمایا) جھوٹی گواہی اشراک باللہ کے برابر ہے پھر انہوں نے اس آیت کو (بطور دلیل) پڑھا۔[2] امام مسلم اور امام ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کبائر کے بارے میں ارشاد نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الشِّركُ باللَّهِ وعقوقُ الوالدَينِ وقتلُ النَّفسِ وقَولُ الزُّورِ)) [3] اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نافرمانی، قتل نفس اور جھوٹی بات۔‘‘ اس حدیث میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی بات کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنے، والدین کی نافرمانی کرنے اور قتل النفس کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ 3: جھوٹ کا منافقوں کی خصلتوں میں سے ہونا: جھوٹ کی شدید خرابی اور قباحت پر دلالت کرنے والی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ منافقوں کی خصلتوں میں سے ایک خصلت اور ان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبی: 55/12۔ [2] تفسیر ابن کثیر: 242/3۔ [3] صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الکبائر واکبرہا رقم الحدیث: 144 (88) 91/1۔