کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 40
بچ گیا تو درحقیقت اس نے اپنے دین اور عزت کو بچالیا اور جو شخص شبہ والی چیزوں میں پڑگیا تو درحقیقت وہ حرام اشیاء میں پڑگیا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو چراگاہ کے پاس بکریاں چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائیں ۔ سن لو! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں ۔ سن لو! انسانی جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہے ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے، وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘ اس حدیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ شبہات سے بچنا تحفظ دین عزت کا اہم ترین ذریعہ ہے اور شبہات میں پڑ جانے والے کی مثال چراگاہ کے قریب چرنے والی اس بکری جیسی ہے جو کسی بھی وقت چراگاہ میں داخل ہوسکتی ہے۔ جس طرح اس بکری کے چراگاہ میں داخل ہونے کا ایک لمحے کا بھی یقین نہیں بالکل یہی کیفیت مشتبہ اشیاء کے مرتکب کی ہے کہ وہ کسی بھی وقت حرام کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ دنیاوی بادشاہوں کی چراگاہوں کا بلا اجازت استعمال جرم ہے اسی طرح اللہ کی چراگاہ، یعنی حرام اشیاء کا ارتکاب قابل مؤاخذہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سلف علماء نے کہا ہے کہ جو شخص اباحیات میں پڑا رہتا ہے ایک وقت آنے پر وہ مکروہات کا مرتکب بھی بن جائے گا۔ بعینہٖ یہی حالت مشتبہ اشیاء کا ارتکاب کرنے والے کی ہے۔ اور ایک مسلمان کا کردار بھی ایسا ہونا چاہیے کہ اس سے افواہوں کو ہوا نہ ملے۔ اس کو اپنے کام حکمت اور دانائی سے سرانجام دینے چاہئیں مبادا لوگوں کے ذہنوں میں الجھنیں پیدا ہوں اور وہ طرح طرح کی باتیں کریں ۔ یہی وجہ تھی کہ جب ایک غزوہ میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے فتنہ انگیزی کی ناکام کوشش کی اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے مسلمانوں کو بھڑکانے اور باہم ٹکرانے کی سعی لاحاصل کی تو کچھ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کو قتل کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ فتنوں کی اس بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ چونکہ یہ منافق بظاہر کلمہ گو اور مسلمان تھا اس لیے آپ نے اس تجویز کو قبول نہ کیا تاکہ اس کے بطاہر اسلام سے عوام کے دلوں میں شکوک و شبہات نہ جنم لیں ، اسی لیے آپ نے فرمایا تھا: