کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 39
کو اختیار کرکے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے، شریعت نے یہ کہا ہے کہ ایسے موقع پر صبر و ثبات سے کام لیا جائے اور انسان کے اس عمل کی نہایت تحسین کی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴾ (آل عمران : 186) ’’اور یہ یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کرلو اور پرہیزگاری اختیار کرو، تو یقینا یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔‘‘ (8)… اسی طرح شریعت نے ان افواہوں ، توہمات اور لایعنی خیالات کا راستہ بند کرنے کے لیے مسلمانوں کو شکوک و شبہات والی چیزوں سے دور رکھا ہے اور جو شخص اپنا دامن شبہ والی چیز سے پاک رکھتا ہے شریعت نے اس کی حوصلہ افزائی اور تعریف کی ہے اور اس کو حفاظت دین کا ایک اہم ذریعہ شمار کیا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَہُمَا مُشَبَّہَاتٌ لَا یَعْلَمُہَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الْمُشَبَّہَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِہِ وَعِرْضِہِ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُہَاتِ کَرَاعٍ یَرْعَی حَوْلَ الْحِمَی یُوشِکُ أَنْ یُوَاقِعَہُ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا إِنَّ حِمَی اللَّہِ فِی أَرْضِہِ مَحَارِمُہُ أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ أَلَا وَہِیَ الْقَلْبُ۔))[1] ’’حلال واضح ہے اور حرام بھی بالکل واضح ہے، ان دونوں کے درمیان کچھ اشیاء مشتبہ ہیں جن سے لوگوں کی اکثریت ناواقف ہے۔ جو شخص شبہ والی چیزوں سے
[1] متفق علیہ۔