کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 37
مساوىء الْأَعْمَال فَلَا تصدقه ‘‘[1] ’’جب کوئی تمہارے پاس آکر یہ کہے کہ فلاں اور فلانی ایسے ایسے برے کام کرتے ہیں تو اس کی تصدیق نہ کرو۔‘‘ علمائے دین نے اسی منہج کو اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدعی سے دعوے کے ثبوت میں دلیل طلب کی جائے گی۔ مجھے ایک یمنی عالم دین شیخ محمد بن اسماعیل صنعانی کا ایک شعر یاد آرہا ہے جسے انھوں نے شیخ محمد بن عبد الوہاب کی مدح و تعریف میں کہا تھا، شعر یہ ہے: وما کل قول بالقبول مقابل ولاکل قول واجب الرد والطرد ’’ہر بات لائق قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر بات قابل تردید ہوتی ہے۔‘‘[2] (6)… اسلامی شریعت نے افواہوں اور جھوٹی نشریات کے رد و ابطال کا ایک یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں عزت و آبرو کے تقدس کو اجاگر کیا ہے اور اس کی حرمت کی حفاظت کی تشویش دلائی ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((مَن رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیْہِ رَدَّ اللّٰہُ عَنْ وَجْہِہِ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) [3] ’’جس شخص نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچائے گا۔‘‘ اس کے برعکس جو شخص دوسروں کی عزت کو پامال کرتا ہے، اپنے مسلمان بھائیوں کی آبرو ریزی کرتا ہے اس کو سخت وعید بھی سنائی ہے تاکہ وہ اس فعل شنیع سے باز آسکے، چنانچہ سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور بلند آواز
[1] الدر المنثور: 558/7۔ [2] الشیخ محمد ص : 236۔ [3] سنن الترمذي : 1931۔ (صحیح)