کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 35
هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ ﴾ (النور : 12)
’’اسے سنتے ہی مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے۔‘‘
آگے فرمایا:
﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ (النور:14)
’’اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر دنیا و آخرت میں نہ ہوتا تو یقینا تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمھیں بڑا عذاب پہنچتا۔‘‘
(3)… اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی خوبی بیان کی ہے کہ وہ صرف صحیح اور ٹھوس معلومات پر اعتماد کرتے ہیں ، فرمایا:
﴿ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ (الزمر:18)
’’جو بات کو گان لگا کر سنتے ہیں ، پھر جو بہترین بات ہو اس کی اتباع کرتے ہیں ۔ یہی ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں ۔‘‘
یہاں بہترین بات سے مراد محکم اور پختہ بات ہے۔ یہ لوگ افواہیں اور جھوٹی خبریں سن کر ان کی طرف مائل نہیں ہوتے بلکہ حق اور صداقت کے دامن کو تھامے رکھتے ہیں ۔ اس کی بہترین مثال سیّدنا ابو ایوب خالد بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ واقعہ افک کے بعد ان کی بیوی نے ان سے کہا: اے ابو ایوب! کیا تم نے وہ بات سنی جو لوگ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہتے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں ، وہ سب جھوٹ اور بہتان ہے۔ اے ام ایوب! کیا تم یہ کام کرسکتی ہو؟ اس نے کہا: نہیں ، اللہ کی قسم میں تو ایسا کبھی نہیں کرسکتی تو انھوں نے کہا: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تجھ سے ہزار درجے بہتر ہیں ۔ یعنی اگر تم ایسا نہیں کرسکتی تو پھر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسا سوچنا بھی ناممکن ہے۔ اسی اعلیٰ اور مثالی کردار کی طرف اشارہ