کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 34
تیسرا مبحث: افواہوں کی تصدیق کرنے کا بیان اسلام ایک باوقار اور پر امن معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جہاں آپس میں مودت و محبت ہو، پیار اور انس ہو۔ ایک دوسرے کے بارے میں ذہن ہر قسم کے گندے خیالات سے صاف ہو، سوء ظن کے بجائے حسن ظن اور اچھی اور مثبت سوچ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا پرسکون اور صحت افزا ماحول پیدا کرنے کے لیے اس نے چھوٹے پروپیگنڈے اور افواہوں کی ہر قسم پر حوصلہ شکنی ہے۔ مسلمانوں کو ان ظنون اور اوہام فاسدہ سے بچانے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی ہیں ، چند تدابیر درج ذیل ہیں : (1)… جھوٹی باتیں پھیلانے اور اس کی تصدیق کرنے والوں کی خوب مذمت کی ہے تاکہ وہ اس فعل شنیع سے باز آجائیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ﴾ (التوبہ : 47) ’’اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لیے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے، بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑادیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے، ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (2)… واقعہ افک میں جن مسلمانوں نے جھوٹی افواہ کی تصدیق کی تھی اللہ تعالیٰ نے انھیں سخت زجر و تبیخ کی اور قصور وار ٹھہرایا ہے، چنانچہ وہ فرماتا ہے: ﴿ لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا