کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 33
رہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی، تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منہ سے نکالنی بھی لائق نہیں ، یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان اور تہمت ہے، اللہ تعالیٰ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو انتہائی بلیغ انداز میں یوں بیان کیا ہے: ﴿ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ ﴾ ’’جب تم اس کو زبانوں سے نقل کر رہے تھے۔‘‘ حالانکہ کوئی بھی خبر ہو انسان پہلے کان سے سنتا ہے، پھر زبان سے اس کی تعبیر کرتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے ان افواہوں اور خبروں کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں غور و فکر نہیں کیا بلکہ جونہی خبر پہنچی زبان سے بیان کردی بجائے اس کے کہ وہ خبر ان کے کانوں پر سے گزرتی وہ اس کو توجہ سے سنتے یا ان کی عقل پر گزرتی وہ اس پر غور کرتی۔ جب ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ خبر براہ راست ان کی زبان تک پہنچی اور زبان نے بلاتامل اس کو بیان کردیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی زبان کے کردار کو نمایاں کرکے بیان کردیا۔ یہ قرآن کی فصاحت و بلاغت کا انتہائی اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان آیات کی تفسیر میں مشہور تابعی امام سعید بن جبیر فرماتے ہیں :
’’ فِي هَذِه الْآيَة عِبْرَة عَظِيمَة لجَمِيع الْمُسلمين إِذا كَانَت فيهم خَطِيئَة فَمن أعَان عَلَيْهَا بِفعل أَو كَلَام أَو عرض لَهَا أَو أعجبه ذَلِك أَو رَضِي به فَهُوَ فِي تِلْكَ الْخَطِيئَة على قدر مَا كَانَ مِنْهُ ۔‘‘ [1]
’’اس آیت کریمہ میں تمام مسلمانوں کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے کہ اگر اُن میں کوئی برائی پائی جاتی ہو تو جس شخص نے بھی اس برائی میں اپنے قول و فعل یا مال و دولت سے حصہ لیا، اس کے پھیلنے میں مدد کی یا اسے پسند کیا اور سراہا اور اس سے اپنی خوشی اور رضامندی ظاہر کی تو وہ اس گناہ میں بقدر حصہ ذمہ دار ہوگا۔‘‘
[1] الدر المنثور 153/6۔