کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 32
تعبیر کیا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے جس سے بے حیائی کے بارے میں اسلام کے مزاج کا اور اللہ تعالیٰ کی منشا کا اندازہ ہوتا ہے کہ محض بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت عند اللہ اتا بڑا جرم ہے تو جو لوگ دن رات ایک مسلمان معاشرے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور فلموں کے ذریعے سے بے حیائی پھیلارہے ہیں اور گھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں اللہ کے ہاں یہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہوں گے؟ اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کیونکر اشاعت فاحشہ کے جرم سے بری الذمہ قرار پائیں گے؟ اسی طرح اپنے گھروں میں ٹی وی لاکر رکھنے والے، جس سے ان کی آئندہ نسلوں میں بے حیائی پھیل رہی ہے وہ بھی اشاعت فاحشہ کے مجرم کیوں نہیں ہوں گے؟ اور یہی معاملہ فواحش و منکرات سے بھرپور روزنامہ اخبارات کا ہے کہ وہ بھی اشاعت فاحشہ کا ہی سبب ہیں یہ بھی عند اللہ جرم ہوسکتا ہے۔ کاش! مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس بے حیائی کے طوفان کو روکنے کے لیے اپنی مقدور بھر سعی کریں ۔ واقعہ افک میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹی افواہ پھیلانے والوں کی مذمت کی جنھوں نے اس منکر افواہ کو رواج دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٤﴾ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمٌ ﴿١٥﴾ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴿١٦﴾ يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ (النور:14تا17) ’’اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر دنیا و آخرت میں نہ ہوتی تو یقینا تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمھیں بہت بڑا عذاب پہنچتا، جبکہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمھیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے