کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 31
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾(النور :19) ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے خواہاں رہتے ہیں ، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں معروف مفسر حافظ ابن کثیر نے فرمایا ہے: ’’ هذا تَأْدِيبٌ ثَالِثٌ لِمَنْ سَمِعَ شَيْئًا مِنَ الْكَلَامِ السییٔ فقام بذہنہ شئ منہ، فل یتکلم بہ ولا یکثر منہ ولا یشیعہ ولا یذیعہ فقد قال تعالیٰ: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ أَيْ يَخْتَارُونَ ظُهُورَ الْكَلَامِ عَنْهُمْ بِالْقَبِيحِ ۔‘‘[1] ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اس انسان کے لیے تیسری بار تادیب ہے جس نے غلط بات سنی اور اس کے کچھ اثرات اس کے ذہن میں باقی رہ گئے (تو اس پر لازم ہے کہ) وہ نہ تو اس کو اپنی زبان سے بیان کرے، نہ اس میں اضافہ کرے اور نہ اس کی اشاعت و ترویج کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ (النور:19) ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا پسند کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی جانب سے قبیح و بے تکی باتیں ظہور پذیر ہوں ۔‘‘ فاحشہ کے معنی بے حیائی کے ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے۔ (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے حیائی سے
[1] تفسیر ابن کثیر 285/3۔