کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 29
دوسرا مبحث: افواہوں کو رواج دینے کا بیان اسلامی شریعت کا مزاج ہے کہ جو بھی خبر یا بات پہنچے اس کی بنیاد معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رواروی اور بے سروپا عزت کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ ایسا طرز عمل انسان کے لیے بہت بڑا عیب اور اس کے کردار کو مجروح بنادیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ایک خصلت کو انسان کے جھوٹا اور بے یقین ہونے کے لیے کافی قرار دیا ہے، فرمایا: ((کَفَی بِالْمَرْئِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ۔))[1] ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (بلا تحقیق) بیان کرے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِیْثًا، وَہُوَ یُرَی أَنَّہُ کَذِبٌ؛ فَہُوَ أَحَدُ الْکَاذِبِیْنَ ۔))[2] ’’جس نے میری طرف سے کوئی حدیث بیان کی اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔‘‘ اسلامی شریعت نے اگرچہ مباح اور جائز بات کہنے کی اجازت دی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس بات کی تلقین و ترغیب بھی دی ہے کہ صرف وہی بات کی جائے جو نفع بخش اور مفید ہو، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ؛ فَلْیَقُلْ خَیْرًا، أَوْ
[1] صحیح مسلم :5۔ [2] صحیح مسلم : مقدمہ : 1۔