کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 28
’’بندہ اللہ کی ناپسندیدہ باتوں میں سے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے، وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ اسی کی وجہ سے جہنم میں جاگرتا ہے۔‘‘ اس کے برعکس جس انسان کی زبان سے اچھے کلمات جاری ہوں ، وہ بولنے سے پہلے سوچنے کی صلاحیت کو بروئے کار لائے کہ اس کے یہ الفاظ کسی کے دردِ دل کا سامان تو نہیں بنیں گے یا ان کلمات کی وجہ سے کسی کی عزت تو داؤ پر نہیں لگے گی تو بسااوقات اس کے منہ سے نکلے ہوئے ایک کلمے کی اللہ کے ہاں اتنی وقعت ہوتی ہے کہ وہی ایک بات اس کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إنَّ العبدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمةِ من رضی اللّٰه لا يُلْقِي لها بالًا یدخل بها في الجنةِ ۔))[1] ’’بسا اوقات انسان اللہ کے پسندیدہ کلمات میں سے کوئی کلمہ ادا کرتا ہے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا تو وہ اسی کی وجہ سے جنت میں داخل ہوجائے گا۔‘‘ لہٰذا انسان کو حزم و احتیاط سے کام لینا چاہیے، جھوٹ اور بے اصل واقعات سے دامن بچا کر رہنا چاہیے اور اس کے منہ سے صرف وہی بات نکلنی چاہیے جو سیدھی، سچی اور صاف ہو۔ خلاصہ بحث: 1: افواہوں کو سب سے مستحکم بنیاد جھوٹ فراہم کرتا ہے جو کہ اسلام میں بہت بڑا جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔ 2: جھوٹ بولنا منافقوں کی سب سے نمایاں علامت ہے۔ 3: افواہیں پھیلانا منافقوں کا کام ہے۔ 4: جھوٹ بولنے والے اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے۔
[1] صحیح بخاری۔