کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 27
پہلی بار چیرا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر میں نے اپنے ساتھ والے دونوں فرشتوں سے پوچھا: سبحان اللہ! یہ دونوں شخص کون ہیں ؟ تو ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ وہ شخص جس کے پاس آئے اور جس کا جبڑا اور نتھنے گدی تک چیرا جارہا تھا وہ ایسا شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور ایسا جھوٹ بولتا جو دور دور تک پھیل جاتا۔‘‘ اس لیے آدمی پر یہ واجب و لازم ہے کہ ایسی بات بولنے سے بچیں جو افواہوں کو ہوا دینے کا سبب بنے، اپنی زبان سے وہی کلمات ادا کرے جو اللہ کی رضا کا باعث ہوں اور ان باتوں سے بچے جو اس کی ناراضگی کا سبب بنیں ۔ چونکہ انسانی عزت براہ راست افواہوں کی زد میں آتی ہے، اس لیے اس کے تحفظ کے لیے انتہائی سنجیدگی اختیار کی گئی ہے۔ بسااوقات انسان کے منہ سے ایسی بات نکل جاتی ہے جس سے انسانی عزت و حرمت کا تقدس پامال ہوجاتا ہے اور لاشعوری طور پر اس کے منہ سے نکلا ہوا یہ ایک کلمہ اس کی تباہی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے، اس بڑی تباہی سے آگاہ کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ مَا یَتَبَیَّنُ فِیْہَا یَزِلُّ بِہَا فِي النَّارِ أَبْعَدَ مِمَّا بَیْنَ الْمَشْرِقِ۔))[1] ’’آدمی اپنی زبان سے ایک بات بولتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں (کہ کتنی کفر اور بے ادبی کی بات ہے) جس کی وجہ سے وہ جہنم کے گڑھے میں اتنی دور گرتا ہے جتنا پچھم سے پورب کا فاصلہ ہے۔‘‘ اسی طرح ایک دوسری روایت میں فرمایا: ((إنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن سَخَطِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا،فيَهْوِي بها في نارِ جَهَنَّمَ ۔))[2]
[1] صحیح البخاري : 6477، صحیح مسلم 8892۔ [2] صحیح بخاری۔