کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 26
تناور درخت بن کر لوگوں کو باہم تلواریں سونت لینے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جھوٹی اور بے اصل باتیں بیان کرنے کی سزا: ((انّہ رَأی فِي المنام، أَنہ مُرّ بہ مع ملکین عَلَی رَجُلٍ مُسْتَلْقٍ لِقَفَاہُ، وَإِذَا آخَرُ قَائِمٌ عَلَیْہِ بِکَلُّوبٍ مِنْ حَدِیدٍ، وَإِذَا ہُوَ یَأْتِی أَحَدَ شِقَّیْ وَجْہِہِ؛ فَیُشَرْشِرُ شِدْقَہُ إِلَی قَفَاہُ، وَمَنْخِرَہُ إِلَی قَفَاہُ، وَعَیْنَہُ إِلَی قَفَاہُ، قَالَ وَرُبَّمَا قَالَ أَبُو رَجَائٍ فَیَشُقُّ قَالَ ثُمَّ یَتَحَوَّلُ إِلَی الْجَانِبِ الْآخَرِ فَیَفْعَلُ بِہِ مِثْلَ مَا فَعَلَ بِالْجَانِبِ الْأَوَّلِ، فَمَا یَفْرُغُ مِنْ ذَلِکَ الْجَانِبِ حَتَّی یَصِحَّ ذَلِکَ الْجَانِبُ کَمَا کَانَ، ثُمَّ یَعُودُ عَلَیْہِ؛ فَیَفْعَلُ مِثْلَ مَا فَعَلَ الْمَرَّۃَ الْأُولَی، قَالَ: قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّہِ مَا ہَذَانِ؟ قَالَ: قَالَا لِی: إِنَّ الرَّجُلُ الَّذِی أَتَیْتَ عَلَیْہِ یُشَرْشَرُ شِدْقُہُ إِلَی قَفَاہُ، وَمَنْخِرُہُ إِلَی قَفَاہُ، وَعَیْنُہُ إِلَی قَفَاہُ؛ فَإِنَّہُ الرَّجُلُ یَغْدُو مِنْ بَیْتِہِ؛ فَیَکْذِبُ الْکَذْبَۃَ تَبْلُغُ الْآفَاقَ۔))[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ’’دو فرشتے آپ کو لے کر ایک ایسے شخص کی جانب چلے جو اپنی گدی کے بل چت لیٹا ہوا تھا اور اس کے پاس ایک اور شخص (فرشتہ) لوہے کی قینچی لیے کھڑا تھا، وہ اس کے منہ کے ایک طرف جاکر اس کا جبڑا گدی تک پھاڑ ڈالتا، نتھنے اور آنکھ کو بھی اسی طرح گدی تک چیر دیتا، پھر دوسری جانب پلٹ کر ایسا ہی کرتا تھا جیسا کہ پہلی جانب کیا تھا اور ایک طرف چیر کر فارغ نہیں ہو تاکہ دوسری طرف کا حصہ بالکل درست ہوکر اپنی اصلی حالت پر آجاتا تھا، پھر وہ اس کی طرف دوبارہ پلٹ کر اس کو چیر ڈالتا جس طرح
[1] صحیح البخاري: 7047۔