کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 25
اس حدیث پر غور کریں تو ایک منافق، اس کا ذہنی رجحان، اس کا کردار اور اس کی شخصیت کے تمام پہلو بالکل نکھر کر سامنے آجاتے ہیں ۔ اوّل تو مہاجرین اور انصار کی اس کشمکش میں ان منافقین کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس میں کسی بھی طرح شامل ہوں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقین میں صلح کرادی معاملہ رفع دفع ہوگیا، غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور دل آئینے کی طرح صاف ہوگئے۔ ان ساری باتوں کے باوجود بھی عبد اللہ بن ابی انصار کو بھڑکاتا ہے، لگی لپٹی باتیں سنا کر طیش دلاتا ہے، جھوٹ بول کر ان کے کان بھرتا ہے اور سب سے بڑھ کر ان کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلاتا ہے۔ اس سے گرا ہوا کردار اور اس سے رذیل ترین حرکت اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہاں بھی ان بے اصل باتوں اور جھوٹے پروپیگنڈے سے عبد اللہ بن ابی کا مقصد یہی تھا کہ انصار اور مہاجرین کی صلح، جنگ و جدال میں اور بھائی چارہ پھر سے دشمنی میں بدل جائے۔ مدینے سے مہاجرین بشمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیا جائے تاکہ اسے اس کی سرداری دوبارہ مل جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے جھوٹ بولا، جھوٹ کو چھپانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بات سے پھرگیا، جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے سے انصار کے کان بھرے، مہاجرین کو حقیر جانا، خود کو عزت دار کہا اور اپنی جھوٹی عزت کے بل پر انصار کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ یہ ساری باتیں ہی افواہوں کا دوسرا نام ہے۔
اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ہر زمانے میں افواہیں پھیلانے میں منافقین پیش پیش رہے۔ منافقت ہی نے افراد کے درمیان صلح و آشتی کی بیخ کنی کی، اسی نے معاشروں کے امن و سلامتی کو غارت کیا، اسی کی وجہ سے ہنستے بستے گھر اجڑ گئے اور یہی وہ نفاق ہے جس نے اسلام اور مسلمانوں کی پیٹھ میں ایسا خنجر گھونپا ہے کہ جس کا زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منافق کے دو چہرے اور دو رخ ہوتے ہیں ۔ یہی دورخی افراد میں شکوک و شبہات کا بیج بوتی ہے، لوگ مختلف اوہام کا شکار ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کے بارے میں مختلف گمان اور سوچیں پیدا ہوتی ہیں ، منفی خیالات ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔ اس دوران میں یہ منافق شخص جھوٹ اور خلافِ حقیقت باتوں سے اس پودے کی آبیاری کرتا رہتا ہے جو بالآخر