کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 24
اس کے بہت بڑے حصے کو سر انجام دیا اس کے لیے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔‘‘ اس آیت میں جو سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اس کا مخاطب عبد اللہ بن ابی بن سلول ہے۔ یہ منافقوں کا سردار اور اندرونی طور پر اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے مار آستین بن کر اسلام اور مسلمانوں کو ہر لمحہ اور موقع ڈسنے کی کوشش کی۔ اس کا سب سے بڑا مقصد زندگانی یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرداری ختم ہوجائے اور اسے اس کا تاج دوبارہ مل جائے، لہٰذا اس نے ہر وہ طریقہ آزمایا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حرف آسکتا تھا اور ہر وہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے لیے باعث نقصان ثابت ہوسکتا تھا، اس کے اس گھٹیا کردار کا نمونہ ایک اور موقع پر یوں سامنے آیا: غزوہ مریسیع یا غزوہ بنی مصطلق میں ایک مہاجر اور ایک انصاری کا جھگڑا ہوگیا، دونوں نے اپنی اپنی حمایت کے لیے انصار اور مہاجرین کو پکارا۔ مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! اور انصاری نے آواز دی: اے انصار! جب معاملہ سنگین ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی گئی، آپ نے فرمایا: ’’یہ تو جاہلیت والا طریقہ ہے۔‘‘ اس طرح معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ عبد اللہ بن ابی منافق نے اس موقع کو غنیمت جانا اور انصار سے کہا کہ تم نے مہاجرین کی مدد کی، ان کو اپنے ساتھ رکھا، اب دیکھ لو، اس کا نتیجہ تمھارے سامنے آرہا ہے، یعنی یہ لوگ تمھارا کھا کر تمہی پر غرا رہے ہیں ۔ ان کا علاج تو یہ ہے کہ ان پر خرچ کرنا بند کردو، یہ اپنے آپ تتر بتر ہوجائیں گے نیز اس نے یہ بھی کہا کہ ہم (جو عزت والے ہیں ) ان (ذلیلوں ) کو مدینہ سے نکال دیں گے۔ سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات خبیثہ سن لیے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر بتایا۔ آپ نے عبد اللہ بن ابی کو بلا کر پوچھا تو اس نے صاف انکار کردیا۔ جس پر سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو سخت ملال ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی صداقت کے اظہار کے لیے پوری سورۂ منافقون نازل فرمادی، جس میں عبد اللہ بن ابی کے کردار کو پوری طرح طشت ازبام کردیا گیا۔[1]
[1] صحیح البخاری : 4900۔