کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 23
غنیمت جانا اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ یہ تنہائی اور علیحدگی بے سبب نہیں ، یوں انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سیّدنا صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ مطعون کردیا حالانکہ وہ دونوں ان باتوں سے یکسر بے خبر تھے۔ (بخاری)
یہ ایک انتہائی اہم موڑ تھا، ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ ہیں جن کو مطعون کرنا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو مطعون کرنا ہے جس کی زد براہ راست دین اسلام پر پڑتی ہے۔ اس سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مہینہ تک وحی نازل نہیں ہوئی جس سے آپ کی بے قراری اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذات پر اس واقعہ کا اثر انتہائی شدید تھا۔ جونہی انھیں خبر ہوئی، بیہوش ہوگئیں ۔ افاقہ ہوا تو سخت بخار تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔
خود بیان کرتی ہیں کہ مجھے یوں محسوس ہونے لگا رو رو کر میرا کلیجہ پھٹ جائے گا اور پھر منافقین نے ان افواہوں کو خوب ہوا دی اور مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔ ایک مہینے کی کشمکش اور بے چینی کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پاک دامن، شریف النسب اور عفت و عصمت کے پیکر کو ایسا بری قرار دیا کہ ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہوگیا اور منافقین کے منہ پر ذلت و رسوائی کا ایسا طمانچہ پڑا کہ قیامت تک ہر مسلمان ان کے ملعون ہونے کی گواہی دیتا رہے گا، چنانچہ فرمایا:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۖ﴾ (النور : 11)
’’جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ لائے ہیں یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروہ ہے۔ تم اسے اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ یہ تو تمھارے حق میں بہتر ہے۔ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا اور ان میں سے جس نے