کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 22
پر پھٹکار برسائی گئی جہاں بھی جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں ۔‘‘
کچھ علماء نے تو اس آیت کو بددعا پر محمول کیا ہے جبکہ بعض دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ یہ منافقین کے بارے میں حکم ہے۔ (فتح القدیر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی دین اسلام کو سب سے زیادہ نقصان ان منافقین کی طرف سے پہنچا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت پریشان اور مضطرب رہے جب منافقین نے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل فرما کر ان کی پاکدامنی کو واضح کردیا اور جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کو قیامت تک کے لیے ذلیل و رسوا کردیا۔ اس واقعہ کا پس منظر مختصراً بیان کیا جاتا ہے تاکہ ان منافقین کا گھٹیا کردار بھی ہمارے سامنے آجائے۔
حکم حجاب کے بعد غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ کے قریب ایک جگہ قیام کیا، صبح کو جب وہاں سے روانہ ہوئے تو سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہودج اہل قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ اُمّ المومنین اس کے اندر ہی ہوں گی اور وہاں سے روانہ ہوگئے حالانکہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے باہر گئی ہوئی تھیں ، وہاں ان کا ہار گرگیا جس کی تلاش میں انھیں دیر ہوگئی۔ جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلا چلا گیا تو یہ سوچ کر وہیں لیٹ رہیں کہ جب ان کو میری غیر موجودگی کا علم ہوگا تو تلاش کے لیے واپس آئیں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ آگئے جن کی ذمہ داری یہی تھی کہ قافلے کی رہ جانے والی چیزیں سنبھالیں ۔ انھوں نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ انھیں دیکھتے ہی انا للَّہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور سمجھ گئے کہ قافلہ غلطی سے یا لاعلمی میں سیّدہ اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہیں چھوڑ کر آگے چلا گیا ہے، چنانچہ انھوں نے انھیں اونٹ پر بٹھایا اور خود نکیل تھامے پیدل چلتے قافلے کو جاملے۔ منافقین نے جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس طرح بعد میں سیّدنا صفوان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آتے دیکھا تو اس موقع کو بہت