کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 20
’’اے ایمان والو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادنی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔‘‘
اس آیت میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ ہر فرد کی یہ ذمہ داری کہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھے۔ یہ غلط فہمی، بدگمانی اور شکوک و شبہات ہی ان افواہوں کو ہوا دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس کا سدباب کرنے کے لیے بدگمانی کو سب سے جھوٹی بات کہا ہے، فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ﴾ (الحجرات:12)
’’اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں ۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اہل خبر و اہل صلاح و تقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت و افتراء کے ضمن میں آتے ہوں ، ناجائز اور حرام ہیں اور حدیث میں اس میں اکذب الحدیث (سب سے بڑا جھوٹ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے، چنانچہ فرمایا:
((إيّاكُم والظَنَّ؛ فإنَّه أَكْذَبُ الـحَديثِ))[1]
’’بدگمانی سے بچو، یقینا بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔‘‘
البتہ یہاں پر یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس سے مراد وہ بدگمانی نہیں ہے جو فسق و فجور میں مبتلا لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گھناؤنے کردار کی وجہ سے ہوتی ہے، جیسا کہ امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:
’’ أَنَّ الظَّنَّ الْقَبِيحَ بِمَنْ ظَاهِرُهُ الْخَيْرُ لَا يَجُوزُ، وَأَنَّهُ لَا حَرَجَ فِي الظن القبيح بمن ظاهره القبح ‘‘ (تفسیر القرطبی)
[1] بخاری۔