کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 191
حرفِ آخر
گذشتہ بحث سے ہمارے سامنے یہ نتیجہ نکلا اسلامی شریعت نے عزت و آبرو کے بنیادی حق کی حفاظت دو طریقوں سے کی ہے۔
1: پہلا طریقہ وجودہ اعتبار سے ہے کہ شریعت نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ شکوک و شبہات کے مقامات سے دور رہیں ۔ معلومات کو قابل اعتماد ذرائع سے حاصل کریں اور ظاہری امور و مسائل پر اعتماد کریں ۔
2: دوسرا طریقہ غیر وجودی اور عدمی اعتبار سے ہے کہ شریعت نے ان افواہوں تک پہنچنے کا ہر راستہ بند کردیا ہے مثلاً: جھوٹ کو حرام قرار دیا، افواہوں کی نشر و اشاعت اور تصدیق و تائید سے منع کیا، دوسروں کی شخصیت کو مجروح کرنے سے روکا، یہ لوگ اگرچہ فاسق و فاجر ہوں جب تک وہاں کوئی شرعی مصلحت نہ ہو سچائی کے ہوتے ہوئے بھی ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا، اسی طرح حد قذف اور دیگر مناسب تعزیرات کا تصور دینا سب ایسے راستے ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ انھی جھوٹی افواہوں کا سدباب کرنے کے لیے ہیں ۔
عقیدہ و فکر، مال و دولت، صحت اور امن امان کو متاثر کرنے والی افواہوں کے خلاف جنگ کرکے دراصل اسلامی شریعت نے مسلم معاشرے کی اصلاح کرنے والی اقدار کی حفاظت کی ہے اور اسی امن و امان کے تحفظ کے لیے اسلامی شریعت نے حکام اور علماء کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط اور جھوٹی افواہوں کو بڑی سختی سے منع کیا ہے۔
دورِ حاضر میں متعدد ذرائع ابلاغ موجود ہیں جن کو ان افواہوں کو ختم کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ صحیح معلومات نشر کی جائیں ، بے بنیاد