کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 19
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔‘‘
جھوٹ کی سنگینی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ جھوٹ اانسان بالاخر جنت سے محروم ہوجاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِی إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتَّی یَکُونَ صِدِّیقًا وَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ یَہْدِی إِلَی النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللَّہِ کَذَّابًا۔)) [1]
’’بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کرلیتا ہے، یقینا جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
((الصِّدقُ طُمَأنينةٌ، والكَذِبُ رِيبةٌ)) [2]
’’سچائی طمانیت اور جھوٹ شک و شبہ کا نام ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس بات کی سخت تاکید کی ہے کہ جب تمھیں کوئی خبر ملے تو پہلی فرصت میں اس کی تحقیق اور چھان بین کرو، مباداں علمی میں تم کسی پر ظلم کر بیٹھو اور وہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بن جائے، چنانچہ فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ۚ﴾ (الحجرات : 6)
[1] صحیح البخاری : 6094۔
[2] سنن الترمذي: 2518، (حسن صحیح)