کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 188
انداز کرنے کا نتیجہ معاشرے کے اسلامی تشخص کے خاتمے کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا، لہٰذا معلوم ہوا کہ مجرد تازہ ترین خبروں اور معلومات کی فراہمی سے خاص قسم کی رائے عامہ کی تشکیل اور رہنمائی ممکن نہیں ، بلکہ اس کے لیے ضرور ہے کہ لوگوں کو جو بھی خبریں یا معلومات فراہم کی جائیں ۔ وہ ملک اور معاشرے کے نظریے اور اقدارِ حیات سے ہم آہنگ اور انہیں تقویت پہنچانے والی ہوں ، ان کو ضعف پہچانے والی نہ ہوں مثلاً یہ کہ اسلامی معاشرے کی شیرازہ بندی، رشتہ اخوت اور معاشرتی عدل ومساوات سے عمل میں آتی ہے، اب اگر اسلامی معاشرے کے اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ ایسی اطلاعات اور خیالات عام کرنے لگیں جن سے یہ رشتے کمزور ہو جائیں ، طبقاتی کشمکش کو ہوا ملے اور معاشرتی مساوات کے بجائے اقتصادی مساوات کے نظریے کو فروغ ہو جن سے عزت اور بزرگی کا معیارِ تقویٰ اور پرہیزگاری کے بجائے دولت اور جائیداد کا زیادہ ہونا قرار پائے تو ایسی کبروں اور اطلاعات کی فراہمی اور خیالات کی اشاعت سے جو رائے عامہ تشکیل پائے گی وہ اسلامی معاشرے کی ترجمان صحافت کا نصب العین ہرگز نہیں ہو سکتی۔
اسلامی نقطہ نظر سے صحافت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تازہ ترین خبروں کی فراہمی اور واقعات وحالات کی تشریح، توجیہہ اور تعبیر کے ذریعے سے رائے عامہ کی اس طرح تشکیل اور رہنمائی کی جائے جس سے خیر اور صداقت کو فروغ اور شر اور باطل کی قوتوں اور منکرات کی بیخ کنی ہو سکے۔
قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں صحافت اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ رضائے الٰہی کے حصول اور آخرت کی نجات اور کامیابی کے لیے انسانوں کو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکتے رہیں ۔ شہادت کو نہ چھپائیں ، بھلائی کی سفارش کریں ، حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہیں ، ظالم حکمرانوں کے سامنے حق وانصاف کی بات کہیں اور کسی قیمت پر بھی ان کی برائیوں کی تائید اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کریں ، حتیٰ کہ اس جہاد اور اصلاح کی کوشش میں اگر اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے