کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 187
صحافت کا مقصد مغربی مفکرین صحافت نے صحافت کے جو مقاصد بیان کیے ہیں ان کا نچوڑ کچھ یوں ہے: ’’اس (صحافت) کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جائے، عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو۔ صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہے۔ عوام کی خدمت اس کا مقدس فریضہ ہے۔ اس لیے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ (فن صحافت، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید) پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ڈاکٹر مسکین علی حجازی نے اس مقصد کو ایک مختصر فقرے میں یوں بیان کیا ہے: ’’صحافت اور صحافی کا بنیادی مقصد لوگوں کو معلومات فراہم کرنا، ان کو تعلیم دینا، ان کی رہنمائی کرنا اور ان کو تفریح فراہم کرنا ہے۔‘‘ صحافت کا یہ مقصد اگرچہ اپنی جگہ درست ہے، لیکن جس طرح کسی ملک کے لیے نصاب تعلیم مقرر کرتے وقت یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس ملک کے لیے کس قسم کے شہری درکار ہیں تاکہ اسی کے مطابق تعلیم و تربیت کا نصاب تیار کیا جائے۔ اسی طرح صحافت کے معاملے میں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کس قسم کی رائے عامہ تشکیل کرنا ہے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جس قسم کی رائے عامہ کی ضرورت اشتراکی روس کو ہو سکتی ہے، سرمایہ داری کے علمبردار امریکہ کے لیے ویسی رائے رائے عامہ موزوں نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح اسلامی معاشرے کی رائے عامہ اور مادیت پسند معاشرے کی رائے عامہ میں بھی فرق واختلاف لازمی ہے جس کو نظر