کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 186
سب ایک ہی ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں ۔ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا حکم سب کے لیے عام ہے۔ زندگی کے ہر شعبے اور ادارے کے لیے سرچشمہ ہدایت ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام، جس کے مطابق سب کو عمل کرنا ہے یہاں نہ کسی کو مطلق آزادی حاصل ہو سکتی ہے، نہ قرآن وسنت کی مقررہ حدوں سے تجاوز کرنے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے۔
پورے کے پورے اسلام میں آجانے کے مطالبے کا منشاء یہ ہے کہ ’’کسی استثناء اور تحفظ کے بغیر اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ، تمہارے خیالات، تمہارے نظریات، تمہارے علوم، تمہارے طور طریقے، تمہارے معاملات اور تمہاری سعی وعمل کے راستے سب کے سب اسلام کے تابع ہوں ۔‘‘
ایسی صورت میں ایک مسلمان صحافی کا فرض ہے کہ وہ صرف اپنی ذاتی زندگی ہی میں اسلام کے احکام و تعلیمات پر عمل نہ کرے، بلکہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کا قلم ٹھیک ٹھیک اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے استعمال ہو۔
زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح شعبہ صحافت میں بھی اسلام کی پیروی کی ضرورت مسلم ہو جانے کے بعد ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض ایک مسلم صحافی کی حیثیت سے ادا کرنا چاہتا ہے اسے کن اصولوں پر عمل کرنا چاہیے اور کن باتوں کو اپنانا اور کن چیزوں سے بچتے رہنا چاہیے۔ قرآن وسنت اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے جب ہم قرآن مجید اور کتب حدیث کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں ان میں آیات واحادیث کی صورت میں صحافت کا ایک مکمل ضابطہ اخلاق موجود نظر آتا ہے جس پر عمل کرنے سے صحافت بلا شبہ انسانیت کی فلاح وبہبود، امن وخوشحالی اور ترقی وکامرانی کا ایک نہایت اہم اور مفید ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔
صحافت کے اس اسلامی ضابطہ اخلاق سے آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ اسلام کی رو سے صحافت کا مقصد کیا ہے؟ کیونکہ مقصد کے تعین کے بعد ہی کردار کا تعین کیا جا سکتا ہے؟