کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 185
صحافت اور اسلام
صحافت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر سے غور کرتے ہوئے پہلا سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ صحافت جب انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے اور اسے معاشرے کے اتنے اہم شعبے کی حیثیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام نے اس کے متعلق ضروری اور اصولی ہدایات نہ دی ہوں اور اس کو یونہی آزاد چھوڑ دیا ہو، بالخصوص اس صورت میں کہ تمام انسانوں کو یہ خوشخبری سنائی جا رہی ہے:
﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (المآئدہ: 3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘
اور دین کو مکمل کر دینے کے بعد مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے:
﴿أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ (البقرۃ: 208)
’’اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
اس مطالبے کے ساتھ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم تو اسلام میں جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے پورے کے پورے آجائیں اور شعبہ صحافت کو باہر آزاد چھوڑ دیں ۔ مغرب کے دین ودنیا کی ثنویت اور تثلیث کے ملحدانہ اور مشرکانہ عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والے معاشرے میں تو ایسا ممکن ہے لیکن عقیدہ توحید پر قائم معاشرے میں فرد اور ریاست