کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 184
ریشہ دوانیاں بغاوت کی شکل اختیار کرتی ہیں ، تو بی بی سی اور مغربی پریس کا رویہ پاکستان کش ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی حکمران اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کرتا ہے، تو اسے رجعت پسند، وحشی اور دقیانوسی کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ اور جب کوئی سیکولرازم یا سوشلزم کا نعرہ لگتا ہے، اخلاقی اقدار کو پامال کرتا ہے، قومی ملکیت کے نام پر ملک کی صنعتی اور اقتصادی ترقی کا ناس کر ڈالتا ہے، تو یہ ذرائع ابلاغ اسے ایشیا کا عظیم لیڈر بنا کر پیش کرتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ مغربی ذرائع ابلاغ کو اس قسم کی ریشہ دوانیوں میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ اس مہارت کو استعمال کر کے انہوں نے جہاں دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے جو مسلمان ہونے کا مدعی ہونے کے باوجود مغربی اور اشتراکی اقدار اور تہذیب کا دلدادہ ہے اور اسلامی تہذیب و اقدار کی پابندی کرنے والوں سے بیر رکھتا ہے، وہاں انہوں نے ہماری صحافی برادری میں بھی ایسے لوگ تیار کر دئیے ہیں جو اسلام کو رجعت پسندی قرار دیتے ہیں ، اسلامی اقدارِ حیات کی پابندی کو پاگل پن اور اسلام کی سربلندی اور احیاء کے لیے کام کرنے والوں کی کردار کشی کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں صحافت کے فروغ و ترقی میں مغربی صحافت اور اس کے آداب اور طریقوں کو نمونے اور معیار کا درجہ حاصل رہا ہے اور ہمارے صحافیوں نے ان کی تکنیک سیکھنے کے ساتھ ساتھ مغربی صحافت کے لادینی اصول ونظریات اور اخلاقی قدروں کو بھی اپنا لیا ہے۔
اس صورت حال کو ہمارے اہل علم نے محسوس بھی کیا ہے اور وہ کبھی کبھی جملہ ہائے معترضہ بھی کہتے رہے ہیں م، لیکن اس مسئلے کا علمی انداز میں جائزہ لے کر قرآن وسنت کی روشنی میں صحافت کے جامع ومانع اصول مرتب کر دینے کی ضرورت کسی نے کم ہی محسوس کی ہے، اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو صحافت کے طالب علم اس سے ضرور رہنمائی حاصل کرتے اور ہماری صحافت اور ذرائع ابلاغ کا اپنا ملی تشخص اور کردار قائم ہونے میں بھی مدد ملتی۔