کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 183
آبادی کا ایک چوتھائی یعنی کوئی ایک ارب سے زیادہ ہیں پھر بھی ان کی خبروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کے مفادات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ذرائع مغرب کی رائے عامہ کے سامنے ترقی پذیر ملکوں ، خصوصاً مسلم ملکوں کے باشندوں کی جو تصویر پیش کرتے ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز اور گمراہ کن ہوتی ہے۔
چند سال ہوئے یونسکو کے ڈائریکٹر جنرل جناب امدد مہتار ایم۔ بو (Amadou Mahtar M. Bow) نے پانچوں بڑے بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ترقی یافتہ ملکوں کے یہ خبر رساں ادارے اپنی اجارہ داری کو ہوشیاری سے ایسی خبریں منتخب کرنے میں استعمال کرتے ہیں جن سے ترقی پذیر ممالک میں صرف نفاق، تناؤ، کشیدگی، پسماندگی، ماردھاڑ، تشدد اور بدنظمی ظاہر ہو، یا ایسی خبریں جن سے اچنبھا ظاہر ہو اور وہاں کے حکمران عجوبہ روزگار نظر آئیں ۔ وہ مثبت قسم کے واقعات، اخبار و احوال اور ترقی کے میدان میں ان کی تگ و دو کو قطعی نظر انداز کر دیتے ہیں اور چونکہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں علم وخبر کا رابطہ انہی خبر رساں اداروں سے قائم ہے اور ایک دوسرے کی سرگرمیوں کے متعلق علم انہی کی ارسال کردہ خبروں سے ہوتا ہے جو اکثر وبیشتر صحیح نہیں ہوتا، لہٰذا جب وہ ان ناہموار آئینوں سے ایک دوسرے کا آئینہ دیکھتے ہیں تو انہیں اپنی شکلیں مسخ شدہ دکھائی دیتی ہیں اور وہ انہیں سچ سمجھنے لگتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان کی تصدیق کا کوئی اور ذریعہ یا پیمانہ نہیں ہوتا۔‘‘ (نوائے وقت ۲۷، دسمبر ۱۹۸۴ء)
سامراجی ملکوں کے یہ خبر رساں ادارے اور نشریاتی ذرائع مسلمانوں کے معاملے میں خصوصیت سے جانبداری برتتے ہیں ، مظلوم فلسطینیوں کو دہشت گرد اور غاصب ومجرم اور جارح اسرائیل کو مظلوم اور تہذیب کا علمبردار بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کی جنگ ہو تو بے تکلف لاہور پر بھارت کا قبضہ کرا دیتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان میں بھارت کی