کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 181
غلامی میں مبتلا کر کے ان کا استحصال کیا اور ان کی تہذیب، قومی روایات، نظریہ زندگی اور اقدارِ حیات کو خود ان کی اپنی نظر میں بے وقعت بنا کر رکھ دیا اور اس طرح اس خطرناک ہتھیار سے وہ کام لیا جو بڑی سے بڑی فوجی قوت کے استعمال سے بھی ممکن نہ تھا۔ آج کے زمانے میں اس سارے عمل کو سرد جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اور یہ تیر وتفنگ کے بجائے ذرائع ابلاغ سے لڑی جاتی ہے۔
اس وقت کیفیت یہ ہے کہ عالمی اطلاعاتی نظام میں ابلاغ کے نوے فیصد ذرائع ترقی یافتہ اور سامراجی ممالک کی اجارہ داری ہے اور عملی طور پر یہ ذرائع صیہونی یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں جن کی اسلام اور انسانیت دشمنی سے ایک دنیا آگاہ ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے اکثر بڑے اور کثیر الاشاعت اخبارات اور جرائد، خبر رساں ادارے، ریڈیو اور ٹیلی ویژن یہودی سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں یا پھر یہ ان کے نگران اور کرتا دھرتا ہیں ، چنانچہ اس طاقت کے بل پر پوری دنیا میں ان کی مرضی چلتی ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہاں پریس پر قبضہ ہونے کی وجہ سے یہودیوں کا اثر ورسوخ غیر معمولی ہے، جہاں کسی نے ان کی مرضی اور مفاد کے منافی کوئی قدم اٹھایا اور یہ اس کے خلاف حرکت میں آئے۔ صدر نکسن اور واڑگیٹ اسکینڈل کی مثال سب کے سامنے ہے۔
سامراجی ممالک خواہ امریکہ اور برطانیہ ہوں یا روس اور فرانس، وہ اپنے مخصوص مفادات رکھتے ہیں اور تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی منڈیاں اور چراگاہیں بنائے رکھنا چاہتے ہیں ۔ امریکہ اگر انہیں مغرب کی اخلاق باختہ ملحدانہ تہذیب کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے تو روس انہیں کارل مارکس (یہودی) اورلینن کے پیش کیے ہوئے اشتراکی شکنجے میں جکڑنے کے لیے پروپیگنڈے کا جال بجھانے میں مصروف رہتا ہے۔
ان مذموم کوششوں کی سب سے زیادہ مزاحمت اسلامی ممالک میں ہوتی ہے کیونکہ مسلمان جس دین حق کے علمبردار ہیں وہ باطل کی طرح دوئی پسند نہیں ، بلکہ لا شریک ہے، چنانچہ اسی لیے یہ ممالک صہیونیوں ، سامراجیوں اور کمیونسٹوں کی زد پر ہیں ۔ سامراجی اطلاعاتی