کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 180
ابلاغ اور تفہیم کا وسیلہ ہونے کے ساتھ ساتھ اعصابی اور نفسیاتی جنگ اور تہذیب یلغار کا بھی بہترین حربہ ہے، اس کے ذریعے نیکی کی تبلیغ بھی کی جا سکتی ہے اور خلق خدا کو بہکانے اور پھسلانے کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔
نئی نئی ایجادات کی بدولت اب یہ نظام اس قابل ہو چکا ہے کہ دنیا کے دور دراز علاقوں اور آہنی پردوں کے پیچھے سے نہ صرف اطلاعات حاصل کر سکتا ہے، بلکہ وہاں اطلاعات پہنچا بھی سکتا ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے لوگوں کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے اور انہیں گمراہ اور بدراہ بھی کر سکتا ہے۔ انہیں حوصلہ اور سہارا بھی دے سکتا ہے اور خوف وہراس پیدا کر کے ان کے حوصلوں کو پست اور عزائم کو کمزور کر کے ان کی صفوں میں دراڑیں بھی ڈال سکتا ہے۔ اتحاد واتفاق بھی پیدا کر سکتا ہے اور باہمی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں خانہ جنگی کی آگ میں بھی جھونک سکتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے ۲۴ مئی ۱۹۴۴ء کو سرینگر میں کشمیر کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا:
’’صحافت ایک بڑی قوت ہے جو فائدہ بھی پہنچا سکتی ہے اور نقصان بھی، اگر یہ ٹھیک نہج پر ہو تو رائے عامہ کی رہنمائی بھی کر سکتی ہے۔‘‘
۱۴، اپریل ۱۹۴۸ء کو سول حکام سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا:
’’صحافت قوم کی ترقی وبہبود کے لیے اشد ضروری ہے کیونکہ اسی کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں سرگرمیاں بڑھانے کے لیے قوم کی رہنمائی اور رائے عامہ کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔‘‘
ترقی یافتہ ملکوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور دل کھول کر صحافت کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی۔ ان ملکوں نے صحافت کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ایک طرف تو انہوں نے اس سے اپنی قوم کی رہنمائی، ترقی، استحکام، اتحاد ویکجہتی اور تہذیب وتربیت کا کام لیا اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر اپنے سامراجی مقاصد پورے کیے۔ پسماندہ قوموں کو ذہنی