کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 18
پہلا مبحث: افواہوں کے پھیلانے کا بیان اسلامی شریعت نے جھوٹی خبروں ، غلط باتوں ، گمراہ کن نظریات اور افواہوں سے نمٹنے کے لیے کئی طریقے اختیار کیے ہیں ، ان میں سے سب سے بنیادی اور اہم جھوٹ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے کیونکہ افواہوں کی بنیاد جھوٹ ہے، جھوٹ ہی اس کی پشت پناہی پر کام کرتا ہے اور جھوٹ ہی اس کی سب سے بڑی دلیل ہے اور یہ ایسے لوگوں کا کام ہے جو واقعات کو الٹ کر بیان کرتے ہیں ، خلاف حقیقت بات کرتے ہیں اور حقائق کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر پیش کرتے ہیں ۔ شریعت نے ان لوگوں کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا کہ جس کی عزت چاہیں ، چھین لیں اور جس کی آبرو چاہیں ، نوچ ڈالیں ۔ بلکہ اس فعل کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو حرام قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جھوٹ کی حرمت کے دلائل تواتر سے منقول ہیں ۔ آخرت میں ملنے والی شقاوت اور بدنصیبی تو الگ ہے جھوٹا انسان دنیا میں بھی خدائی رہنمائی، یعنی ہدایت سے محروم رہتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ ﴾ (الزمر: 3) ’’بے شک اللہ تعالیٰ جھوٹے اور ناشکرے کو ہدایت نصیب نہیں کرتا۔‘‘ مزید فرمایا: ﴿ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ﴾ (الاسراء : 36) ’’جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو۔‘‘ یعنی بدگمانی مت کرو، کسی کی ٹوہ میں مت رہو اور جس چیز کا علم نہیں ، اس پر عمل مت کرو۔ جھوٹ سے اپنا دامن بچا کر سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا حکم یوں دیا: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ۚ﴾ (التوبہ: 119)