کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 176
حال جاننے کی کوشش کرتے تھے۔
مفتی محمد شفیع مرحوم، مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہما کے رسالے ’’اخبار بینی‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی ایک تحریر ’’آداب الاخبار‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی اسلامی برادری کے اخبار واحوال پر مطلع ہونے، کرنے کا اہتمام اس لیے فرماتے تھے، کہ مطلع ہو کر مظلوم کی دادرسی، بیمار کی عیادت، ضعفاء کی اعانت، محتاجوں کی امداد کرنے کے لیے ہر قسم کے مادی اور روحانی ذرائع استعمال کیے جائیں اور اگر کسی مادی امداد پر قدرت نہ ہو تو کم از کم دعا سے اس کے شریک غم ہو جائیں ۔‘‘
برصغیر پاک وہند کے حکمرانوں کے عہد میں بھی قلمی اخبارات کا سلسلہ قائم رہا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اس اخباری پیشے سے وابستہ اخبار نویسوں نے حصولِ معاش کے لیے امراء اور روساء کو معاوضے پر قلمی اخباروں کی نقلیں فراہم کرنا شروع کر دیں ۔ اسی دوران میں طباعت کی سہولتیں عام ہوئیں اور انگریزی اخبارات کی طرز پر اُردو اخبارات بھی چھپنے لگے۔ پچھلی صدی میں مسینی ایجادات ہوئیں اور ان کے طفیل دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں کے درمیان قریبی رابطے قائم ہوئے۔ ریل، ٹیلی فون، تاربرقی، ہوائی جہاز اور لاسلکی مواصلاتی سہولتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ خبروں کی فراہمی کے نظام میں بھی انقلاب رونما ہوتا گیا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چونکہ سب سے زیادہ ترقی یورپ وامریکہ میں ہوئی اس لیے فطری طور پر اخبار نویسی کے فن کو وہیں عروج حاصل ہوا۔ افریقی اور ایشیائی ملکوں میں اس شعبے کی ترقی چونکہ یورپ وامریکہ میں ہونے والی مشینی ایجادات کی مرہون منت ہے اور خود صحافت کے میدان میں بھی ان کی تقلید کی گئی ہے، اس لیے قدرتی طور پر ہماری صحافت پر مغربی صحافت کی چھاپ اور اثرات نمایاں ہیں ۔
صحافت اور صحافی کے الفاظ یوں تو عربی زبان کے لفظ صحیفہ سے نکلے ہیں ، لیکن ہمارے ہاں انگریزی کے الفاظ جرنل ازم (Journalism) اور جرنسلٹ (Journalist)کے ترجمے