کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 166
اطاعت کو بھی جائز نہیں رکھا کجا کہ کسی اور کی اطاعت کا سوال پیدا ہو حالانکہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو غلط بات کا حکم دے ہی نہیں سکتے۔ اس حدیث کی رو سے کسی صحافی کو ہرگز کوئی ایسی بات کرنا اور لکھنا نہیں چاہیے جو اس کے میر کی آواز کے خلاف ہو اور جس سے دین کے مقرر کیے ہوئے حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ اسے ایسے ہر داخلی اور خارجی دباؤ کی مزاحمت کرنا چاہیے جو اس کے ضمیر کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے اس پر ڈالا جائے۔ عملی صحافت میں ایسے کئی سخت مقام آتے ہیں ،جہاں ایک عامل صحافی کو یہ سوال درپیش ہوتا ے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق عمل کرے یا وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہو جائے جس کی تائید اس کا ضمیر نہیں کرتا۔ یہ سوال کبھی کسی شخص یا گروہ کی حمایت اور مخالفت کے معاملے میں سامنے آتا ہے، کبھی کسی مضمون یا خبر کو چھاپنے اور نہ چھاپنے کے سلسلے میں پیش ہوتا ہے اور کبھی کسی اخبار کی پالیسی کے مطابق کام کرنے یا نہ کر سکنے کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے ہر صورت دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتی۔ ایک طرف ضمیر کے مطابق کام کرنے میں ملازمت کے چلے جانے سے لے کر جان جانے تک خطرات ہوتے ہیں اور دوسری طرف گو ناں گوں مالی اور مادی مفادات کا سبز باغ لہلہا رہا ہوتا ہے۔ اس امتحان وآزمائش میں صرف وہی صحافی پورے اترتے ہیں ، اتر سکتے ہیں جو بااصول اور صاحب کردار ہوں ، جن کا اپنے نظریے پر پختہ یقین ہو اور جنہیں احساس ہو کہ بے اصولی کے صلے میں حاصل ہونے والے مادی اور دنیوی فائدے دنیا ہی میں رہ جائیں گے اور صرف اس کا وبال نامہ اعمال کا حصہ بن کر تاقیامت جائے گا۔ صحافت کے صنعت بننے سے پہلے اخبار کسی خاص مشن یا نقطہ نگاہ کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے نکالے جاتے تھے اور ان کے عملے میں بھی زیادہ تر وہی لوگ شامل ہوتے تھے جنہیں اس مشن یا نقطہ نگاہ سے اتفاق ہوتا تھا۔ اخبار کے مالک اور عامل صحافی دونوں کی سوچ ایک جیسی ہوتی تھی، اس لیے وہ اپنے ضمیر کی مکمل آزادی کے ساتھ کام کرتے