کتاب: افواہوں کی شرعی حیثیت وجوہات، اقسام، اثرات - صفحہ 163
’’اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی مثال ایک ایسے راستے کی مانند بیان فرماتا ہے جس کے دونوں طرف دو دیواریں کھنچی ہوئی ہیں اور ان دونوں دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے موجود ہیں ، جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں ، اس راستے کے سرے پر ایک آواز دینے والا آواز دے رہا ہے کہ اس پر سیدھے چلے چلو اور ادھر ادھر نہ مڑو، اس کیع لاوہ ایک پکارنے والا اوپر بھی موجود ہے اور جب کوئی راستہ چلنے والا شخص چاہتا ہے کہ ان میں سے کسی دروازے کو کھولے تو اوپر موجود پکارنے والا پکار کر کہتا ہے: بے وقوف! خبردار دروازہ نہ کھولنا، اگر تو دروازہ کھولے گا تو تجھے پھر اس میں داخل ہونا پڑے گا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضرب المثل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ راستہ اسلام ہے اور اس کے دونوں طرف کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی محرمات ہیں اور یہ پردے اس کی حدود ہیں اور راستے کے سرے پر پکارنے والا قرآن ہے اور اوپر کا پکارنے والا خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر مومن کے قلب میں ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ باب الاعتصام، بالکتاب والسنۃ) اس ضمیر کا زندہ ہونا آدمی کے ایمان کی دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہاری نیکی تم کو خوشی بخشے اور تمہاری بدی تم کو غمگین کر دے تو تم مومن ہو۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل، مستدرک حاکم، کتاب الایمان) ’’جس کو نیکی خوش اور برائی غمزدہ بنائے وہ مومن ہے۔‘‘ (کنز العمال) ’’جس شخص نے جب کوئی برا کام کیا تو اس کو اس سے نفرت ہوئی، اور جب کوئی اچھا کام کیا تو اس کو اس سے مسرت ہوئی تو وہ مومن ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم، کتاب الایمان) اس بحث سے معلوم ہوا کہ آدمی کا ضمیر اسے نیکی پر ابھارتا اور برائی پر ملامت کرتا ہے اور اس معاملے میں وہ واعظِ خدا ہونے کی بنا پر کبھی مداہنت سے کام نہیں لیتا۔ اس لیے آدمی